میں وہ تصویر ہوں جس کو مصور 

ادھورا چھوڑ کے خود رو پڑا



گزر رہی ہے بے لطف سی زندگی 

نا دل لگی میں مزہ نا دل لگانے میں



میری آنکھوں کو دیکھ کر ایک صاحب علم بولا 

تیری سنجیدگی بتاتی ہے تجھے ہنسنے کا شوق تھا



نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے 

مگر یہ بات بڑی دور جا نکلتی ہے 



جس کو خوش رہنے کے سامان میسر سب ہوں 

اس کو خوش رہنا بھی آۓ یہ ضروری تو نہیں




تم پوچھتے ہی نہیں پریشانی کی وجہ 

کچھ اس وجہ سے بھی پریشان ہوں میں


یہاں اداس ہے ہر ایک شخص 

کوئی اندر سے کوئی باہر سے



کتنی ویران سی رہ جاتی ہے دل کی بستی 

کتنے چپ چاپ سے چلے جاتے ہیں جانے والے



اداسیاں ہیں مگر وجہ غم معلوم نہیں 

دل پہ بوجھ سا ہے شاید بکھر گیا ہوں میں 



دفن ہیں مجھ میں کتنی رونقیں مت پوچھو

اجڑ اجڑ کر جو بستا رہا وہ شہر ہوں میں



میں سب کو ہنسانے والی لڑکی 

جب خدا سے اپنی باتیں کرتی ہوں

تو رو پڑتی ہوں



اداس زندگی اداس وقت اداس موسم


کتنی چیزوں پہ الزام لگ جاتے ہیں 

ایک اس کے بات نہ کرنے سے


مجھ سے ملنے لگے ہو جب سے 

الجھنیں بڑھنے لگی ہیں تب سے



ویرانیاں اندر کی 

اک قلب جانے اک رب جانے



ہنسنا تو مجبوری بن گئی ہے

صاحب

اداس ہوں گے تو لوگ سمجھیں گے

محبت میں ہار گئے ہیں